نتایج جستجو برای عبارت :

ثبت شه برا شب عروسی صائب

به قول صائب تبریزی همت ورزی ، کیمیاییست که هر قفلی را می گشاید:
اهل همت رخنه در سد سکندر می کنند
                               این سبک دستان، کلید فتح را دندانه اند
 
و بازهم صائب می سراید که این کیمیای همت حتی خاک را زر می کند و: 
به آب روی همت، خاک را زر می توان کردن
                          غلط کردم که عمر خویش صرف کیمیا کردم
 
و باز تأکید می‌کند که:
کار اکسیر کند همت ذاتی، صائب»
                                   خاک در دست، زر و سیم شود حاتم را
 
دیگر اب
1. ہے یہ نہاں آپ کی تحریر میں
ظلمتیں پنہان ہیں تنویر میں
2.تیشہِ فرہاد سے پوچھے کوئی
کیا ہے دھرا زلف گرہ گیر میں
3.اٹھ کے وہ لیتا ترے دامن کو کیا؟
دم ہی کہاں تھا ترے نخچیر میں
4.غرق قلم وصل کی خواہش میں ہے
کیا شبِ غم لائے گا تحریر میں
5.آپ کے آنے کی ملی تھی خبر
خون، جگر ہوگیا تشہیر میں
6.ہے وہ رگِ گل سے بھی نازک مگر
پاؤں ہیں پابند اسی زنجیر میں
7.شکر ہے قاتل نے مرے خون سے
رنگ بھرا ہے مری تصویر میں
8.کاش کہ تدبیر سے صائب کھلے
درج ہے کیا کیا مری تقدیر میں
صائ
بے کراں درد کی جاگیر کو اپنا کرکے
کوئی اک بھی نہ جیا آج تلک جی بھر کے
بت شکن لے کے اٹھا عشق کا تیشہ جس دم
خود بخود کٹ کے زمیں پر گرے ہاتھ آذر کے

یاس سے تکتے رہے اہل جنوں رختِ سفر
نام سارے ہی بدل ڈالے گئے محضر کے
درد و غم، یاس و الم، حسرت و نوحہ، گریہ
ٹکڑے کتنے ہوئے اس خاک کے اک پیکر کے
اتنے بےباک تو ہم پہلے کبھی تھے ہی نہیں
کتنا ہنستے ہیں جو سنتے ہیں بیاں م کے
ایسا غم کیش ہے سینہ  مرا صائب کہ یہاں
موت رقصاں ہے پہ آثار نہیں ہیں ڈر کے
---- صائب جعفری
کیا آخری برس یہ دنیا کا اے خدا ہےیہ سال کیسے کیسے شہکار کھا گیا ہے
حق کی تلاش کا یہ میں ثمر ہے پایااب میری راہ میرے اپنوں سے بھی جدا ہے
دشنام دے کے در سے دھتکار دے مجھے کیامیں نے تو حق کہا تو ناحق خفا ہوا ہے
شاعر کا سر قلم ہونے کا کریں گے ساماںقرطاس اور قلم نے یہ فیصلہ کیا ہے
غسال و گورکن کو فرصت کہاں کہ دیکھیںانسانیت کا لاشہ بے گور ہی پڑا ہے
جاؤ میاں، بتاو، یہ بھی ہے بات کوئیشمعیں جلا جلا کر بس دیپ بجھ گیا ہے
شاید کوئی نہ سمجھے شاید سمجھ لے کوئیسا
کچھ سخاوت اگر افلاک کریں
میرا حصہ خس و خاشاک کریں
 
یہ ہو خوں نابہ فشانی کا اثر
نالے پتھر کو بھی نم ناک کریں
بس ہنر مند وہی ہیں، ترا نام
آب پر نقش جو حکاک کریں
 
ہجر کے زہر ہلاہل کو چلو
وصل کے درد کا تریاک کریں
 
دل ہے اک ظرف مئے عشق ایسا
جس کی تعظیم سبھی تاک کریں
 
حسرت و درد کے دریاؤں کا
اپنی ارواح کو پیراک کریں
 
اک تقاضہ ہے محبت کا یہی
ہر تمنا کو تہہ خاک کریں
 
ہم کہ پابند رسومات رہے
اپنے بچوں کو ہی بے باک کریں
 
کام صائب کے سنور جائیں، اگر
 اک نظ
 
انجمن ادبی اقبال لاہوری(قم مقدس) کی پندرہ روزہ نشست میں پیش *نہ کی گئی طرحی منقبتی غزل* 
بیان عشق شمائل اگر ضروری ہےشعور شعر بھی غافل بصر ضروری ہے
اگرچہ کرنا ہے اعلان وحدت حق.کاہزار رنگ کی.محفل.مگر ضروری ہے
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزلغزل کو اوج فضائل کا گھر ضروری ہے
یہ راہ عشق ہے ہرگام پر دعا کیجےبہک نہ جائے کہیں دل حذر ضروری ہے
یہ عشق عاشق و معشوق ایک ہیں لیکنیہ بات سہنے کو قابل نظر  ضروری ہے
سکوت بحر سے کشتی ہے پرسکوں لیکنبرائے ارزش ساحل ب
صائب جعفری:
۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ نے غالب کے یوم ولادت کی مناسبت سے شعری ادبی نشست کا اہتمام کیا جس میں تمام شعراء نے غالب کی مختلف غزلوں پر تضمین پیش کی وہیں راقم الحروف صائب جعفری نے غالب کی ایک زمین میں چند ابیات کہنے کی جسارت کی اور غالب کے مصرع "طاقت بیداد انتظار نہیں ہے" پر تضمین کی جو پیش خدمت ہے.

گلشن احساس پُر بہار نہیں ہے
کیونکہ میسر ترا جوار نہیں ہے
کیوں مجھے دھتکارتے ہیں تیرے جلووار
تیرے محبوں میں کیا شمار نہیں ہے
عشق کی تہذی
کبھی جو قصہِ حسرت سنانا پڑتا ہے
زمیں کو بامِ فلک سے ملانا پڑتا ہے
ہوس کو جلوہِ جاناں کی آرزو کے لئے
دل و نظر کو بہت آزمانا پڑتا ہے
یہی ہے رسم ازل سے گلوں کو خار کے ساتھ
نہ چاہتے ہوئے ، رشتہ نبھانا پڑتا ہے
خزاں گَزیدہ  کو اگلی  خزاں کے آنے تک
گلوں کے داغ سے دامن بچانا پڑتا ہے
خرد کو، ہوش کو، ہستی کو، فکر کو، دل کو
اس ایک عشق میں کیا کیا گنوانا پڑتا ہے
تمہیں خبر ہے قیامت بھی کانپ جاتی ہے
جگر کو تھام کے جب مسکرانا پڑتا ہے
وجود رکھتا ہوں میں بھی دیارِ ہ
رافت کا محبت کا ہے یم بھی سلیمانی
اور عشق ولایت کا عالم بھی سلیمانی
 
اسلام کے دشمن کو پیغام اجل بھی ہے
اسلام کے لشکر کا ہمدم بھی سلیمانی
 
مظلوموں کی خوشیوں کا باعث تھا جہاں بھر میں
اور ٹوٹے دلوں کا تھا مرہم بھی سلیمانی
 
تفسیر اشدا کی شرحِ رحما یعنی
شعلہ بھی سلیمانی شبنم بھی سلیمانی
 
تھا ابن حسن قاسم اس نام کی نسبت سے
پامالئ تن کا تھا محرم بھی سلیمانی
 
نازاں ہے بہت تیرے بازوئے بریدہ پر
انگشت میں رہبر کی خاتم بھی سلیمانی
 
مالک بھی شجاعت پر ت
بزم استعارہ کی آج کی ہفتہ وار نشست میں پیش کی گئی تازہ غزل
ایسا ہوا تھا اک بار احساسمیرا نہیں تجھ کو یار احساس
میرا یقیں ہے اب بھی نہیں ہےزر کے جہاں میں بے کار احساس
تیرے لئے تھے تیرے لئے ہیںعزت، محبت، اشعار، احساس
پھر آج جیسا شاید نہ ہوگاحساسیت سے دوچار احساس
آنکھوں کے حلقے خود کہہ رہے ہیںہے ذہن پر تیرے بار احساس
لیکن تمہیں شرم آتی نہیں ہےکرنے لگے اب اغیار احساس
کیا کیا گذرتی ہے گل پہ لیکنذرہ نہیں کرتا خار احساس
سجدہ بہر صورت لازمی ہےگرچہ نہی
*غلو اور شرک سے مملو سبھی افکار پر لعنت**تری صوفی گری پر اور ترے اذکار پر لعنت*
*ہو رحمت کی فراوانی غلامانِ ولایت پر**جسے سید علی کَھلتا ہو اس بدکار پر لعنت*
*ولایت کا تسلسل ہے ولایت خامنہ ای کی**اسے تقصیر کہنے والے ہر مردار پر لعنت*
*کمیت و حمیری، دعبل سے مداحوں پہ رحمت اور**جو بھونکے عالموں پر ایسے بدبودار پر لعنت*
*علی کے سچے عاشق سیستانی خامنہ ای ہیں**جو ان سے بیر رکھے ایسے استعمار پر لعنت*
*سلام ان مومنوں پر جو رہِ حیدر پہ ہیں، لیکن* *مقصر، غالی ا
یہ ہے سچ مجھے ہے تجھ سے بہت انسیت فلسطیں 
پہ قلم سے کیسے لکھوں دلی کیفیت فلسطیں
 
تو ہے وحی کی زمیں.بھی تو ہے خون کی ندی بھی
کہوں تیرا مرثیہ یا تری منقبت فلسطیں
 
تجھے تہنیت میں دوں یا کروں پیش تعزیت میں
کہ شہید ڈھالتی ہے تری تربیت فلسطیں
 
تہہ خاک ہوگی اک دن ترے دشمنوں کی نخوت
تا ابد رہے گی قائم تری تمکنت فلسطیں
 
بخدا پڑھیں گے ہم بھی ترے صحن میں نمازیں
اے عظیم بیت مقدس اے حرم صفت فلسطیں
 
یہ ہے وعدہ الہی نہ اُسے اماں ملے گی
ترے ساتھ کر رہا ہے جو ب
محترم جناب حیدر جعفری صاحب کے دولت کدہ پر منعقدہ بزم استعارہ کی ہفتہ وار شعری نشست اور طرحی منقبتی محفل میں پیش.کئے گئے اشعار
 
کرنی ہے مجھ کو آپ کی مدح و ثنا تقیمجھ پر بھی باب علم کو کردیجے وا تقی
صورت میں یہ تجلئ پروردگار ہیںسیرت میں ہو بہو ہیں شہ انبیا تقی
منزل ہے علم کی یہاں سن کا نہیں سوالیحیی ہیں ورثہ دار شہ لا فتی تقی
سمجھا رہا ہے دہر کو معنئ عشق نابوہ فاطمہ کی یاد میں رونا ترا تقی
میں نے اترتے دیکھے فرشتوں کے طائفےمشکل گھڑی میں.جب بھی پکا
ہاشمی خوں کا دبدبہ زینب     
صولتِ دینِ مصطفیٰ زینب 
نازشِ گلشنِ حیاء زینب     
نکہتِ باغِ مرتضیٰ زینب 
آپ  ہی سے ہے ابتدائے وفا    
آپ ہی پر ہے انتہاء زینب
 
قصرِ باطل میں کہنے حق کی اذاں    
آگئیں بن کے فاطمہ ، زینب 
مدعائے دل رسول، بتول    
فاطمہ کا ہیں مدعا زینب
 
عفت و عصمت و شرافت میں    
فاطمہ کا ہیں آئینہ زینب
 
زینتِ مصطفیِ ہیں شیرِ خدا    
زینتِ شیرِ کبریا زینب
 
محوِ کرب و بلا ہے کل عالم    
آپ میں محو کربلا زینب
 
شاملِ عزمِ شاہِ کرب و بل
قم مقدس ایران میں طرحی محفل مقاصدہ منعقدہ ۱۲ رجب ۱۴۴۳ میں پیش کیا گیا کلام
 
پرجبرئیل قلم ہوا بنا میرا قلب دوات ہےہوئی روح صفحۂ منقبت کہ رجب کی تیرہویں رات ہے
یہ جو بیت حق میں سنا رہا ہے نبی کی گود میں آیتیںیہی ذات حق کا ہے آئینہ یہی جلوہ گاہ صفات ہے
شہ لافتی نے ہبل کو جب کیا خاک عزی کے ساتھ تبپئے انتقام خود آدمی ہوا لات اور منات ہے
جو علی کے عشق میں ڈھل سکے جو علی پلڑے میں تل سکے وہ ہے صوم صوم حقیقتا وہ صلاۃ ہی تو صلاۃ ہے
یہ جو باطلوں کا ہجوم ہے م
.
۱.کفر و نفاق و شرک کے مرگ و مفر کا نام
شعبان ہے لقائے خدا کے سفر کا نام
۲.عالم بعرض وسعتِ شوقِ وصالِ یار
ہے نفسِ مطمئنہ کی فتح و ظفر کا نام
۳.خونِ دلِ بتول نے پھر جان ڈال دی
تھا رو بہ مرگ عظمت نوعِ بشر کا نام
۴.رکّھا خدا نے زینب و حسنین شان سے
بنت نبی کے سجدۂ گامِ سحَر کا نام
۵.تصویرِ مصطفیٰ علی اکبر کا ہے خطاب
عبّاس مرتضیٰ کے ہے نقشِ دگر کا نام
۶.ابھری تخیئلات میں عباس کی شبیہ
تو محو ذہن سے ہُوا شمس و قمر کا نام
۷.جو عشق کی نگاہ ہو پیدا نظر پڑے
قلبِ ف
بزم استعارہ(قم مقدس ایران) کی ہفتہ وار شعری تنقیدی نشست میں پیش کئے گئے اشعار احباب کی نذر
 
وسعت بیاں میں چاہئے موزوں زمانہ چاہئے
یونہی نہیں ہر راز سے پردہ اٹھانا چاہئے
 
سارے کا سارا دیں ریا کاری میں ہے سمٹا ہوا
سو اپنی دیں داری زمانے کو دکھانا چاہئے
 
خود اپنے ہاتھوں خود کو علامہ کی دے کر اک سند
مولانا صاحب آپ کو چینل بنانا چاہئے
 
علم و عمل سے آپ ہیں عاری مگر ہر حال میں
منبر پہ چڑھ کر وعظ تو سب کو سنانا چاہئے
 
دستار عالیشان ہونا چاہئے سر پر س
میں ہوں حسینی مرا وقار ما لی امیر سوی الحسین
قید و شہادت ہیں افتخار ما لی امیر سوی الحسین
 
خوں رنگ فکر صنم تراش آواز خامہ ہے پر خراش
کہتی ہے یہ آنکھ اشکبار ما لی امیر سوی الحسین
 
راہ عمل میں بڑھو شتاب آئے نہ دل میں کچھ اضطراب
ہر اک کا ہو بس یہی شعار مالی امیر سوی الحسین
 
روشن کرو قلب کا ایاغ حق کا ملے گا تمہیں سراغ
دل سے کہو تم جو ایک بار مالی امیر سوی الحسین
 
سوتے ہیں انساں اگرچہ آج جاگیں گے کل جب یہ حر مزاج
گونجے گی گھر گھر یہی پکار مالی امیر س
عید غدیر خم تمام مسلمانوں کو مبارک ہوشب گذشتہ قم میں کی ایک محفل کے لئے لکھی اور پڑھی گئی طرحی منقبت بمناسبت عید غدیر خم
 
مئے عشق کے خم لنڈھائے گئے ہیںبہاروں کے نغمے سنائے گئے ہیں
علی کی ولایت کا اعلان کرکےشفاعت کے موتی لٹائے گئے ہیں
کجاووں کے منبر پہ صحرائے خم میںدو عالم کے دولھا سجائے گئے ہیں
جو کعبے میں باندھے گئے عہد و پیماںوہ میدان خم میں نبھائے گئے ہیں
الست اور معراج کے واقعوں کےنتائج زمیں پر دکھائے گئے ہیں
ردائے ہدایت علی کو اوڑھا کر"ح
 
۱. کب یہ مجالِ علم ہے میرے کریم اے خداحمد تری قلم  لکھے میرے کریم اے خدا
۲. تو رگِ جاں سے ہے قریں پھر بھی ہیں ہم میں دوریاںتو ہی مٹا یہ فاصلے میرے کریم اے خدا
۳. میرے گناہ بخش کر میرا وجود پاک کرہستی مری سنوار دے میرے کریم اے خدا
۴. صوم و صلاۃ حج زکاۃ امر و نہی که حبُّ و بغضکاش ہوں سب ترے لئے میرے کریم اے خدا
۵. کرلے قبول تو اگر مجھ کو تو پھر نہیں غرضکچھ ہوں جہاں کے فیصلے میرے کریم.اے خدا
۶. رازِ دروں عیاں کرے حبِّ جہاں دھواں کرے شمع وفا جو جل اٹھے می
انجمن طلاب کھرمنگ بلتستان کی طرحی محفل کے لئے لکھا گیا کلام
کفر کی تاریکیوں میں اک دیا قرآن ہےمعرفت در معرفت کا سلسلہ قرآن ہے
ہو ازل سے بے عدیل و تا ابد ہو لا جوابمعجزہ ایسا فقط حیدر ہیں یا قرآن ہے
دیکھ.لیتی.ہے سرائے دہر میں حسن و جمالجس نگاہ شوق کا بھی زاویہ قرآن ہے
کاسہ دل کی طلب دونوں جہاں کے واسطےایک اہل بیت ہیں اور دوسرا قرآن ہے
حجت حق تک جو لے جائے بلا تردید و شککل بھی تھا اور آج بھی وہ راستہ قرآن ہے
در بدر یوں مت بھٹک بہر حیات طیبہ*اک.مکم
۵ جمادی الاولیٰ جناب زینب کبریٰ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے چند اشعار
ـــــــــــــــ
اسی عنوان سے کھولا گیا باب زینب
دین اسلام ہے دراصل شباب زینب
.
عالم خلق میں تکرار کا امکاں ہی نہیں
دہر میں ڈھونڈئیے اب آپ جواب زینب

کوئی معمولی ہے وجہ اللہ کی زینت ہونا
صرف زینب پہ جچا ہے یہ خطاب زینب
.
عظمت فاطمہ تقدیس علی حب حسین
ان ہی نکتوں سے عبارت ہے کتاب زینب

خطبہ فاطمہ زہرا کا تسلسل ہی تو ہے
شام و کوفہ کے خرابوں میں خطاب زینب

شب معر
قم مقدس میں کھرمنگ بلتستان کے طلاب کی ادبی انجمن کے زیر اہتمام طرحی منقبتی مشاعرہ میں پیش کئے گئے اشعار احباب کی نذر
*قرآن پڑھ رہا ہے قصیدہ غدیر کا*
فیضان کردگار ہے جلوہ غدیر کامنشور کائنات ہے قصہ غدیر کا
میدان سے پہلے دکھا دیاپاکر رسول حق نے اشارہ غدیر کا
آیات کی زبان میں جبریل جھوم کرسب کو سنا رہے ہیں ترانہ غدیر کا
بلغ کی صوت ہے کبھی اکملت کی صدا*"قرآن پڑھ رہا ہے قصیدہ غدیر کا"*
بہر علی غدیر میں حکم رسول پرمنبر بنا رہے ہیں صحابہ غدیر کا
طرحی مصرع: ایک ہے خطبہ زینب کا اور اک خطبہ سجاد کا ہے
ایسا نگاہ خالق میں رتبہ والا سجاد کا ہےکعبہ منا اور مروہ صفا سب کچھ ورثہ سجاد کا ہے
یوں تو عبادت میں حیدر کا کوئی نہیں ثانی لیکنسجدہ گذاروں کا.سید بس نام ہوا سجاد کا ہے
نہج بلاغہ ایک تجلی جیسے ذات حیدر کیایسے زبور آل احمد اک جلوہ سجاد کا ہے
ان کاصحیفہ پڑھ کے خدا کی آپ رضا پا سکتے ہیںیعنی وہاں بھی جو چلتا ہے وہ سکہ سجاد کا ہے
حمد خدا اور نعت نبی کا کیف تو پائے گی ہی زباںمیرے لبوں پر سانجھ سویرے ذ
وجود خدا کی بنا جو دلیل امیری حسین و نعم الامیر
خدا کا جو مظہر ہوا بے عدیل امیری حسین و نعم الامیر
 
فقط یہ نہیں نوع انساں کی بات یہ آواز ہے نغمۂ ممکنات
جوسنتے ہو کہتے ہیں یہ جبرئیل امیری حسین و نعم الامیر
 
لہو رنگ صحرا وہ شدت کی پیاس پکارے اے سید اے دیں کی اساس
تمہی خلد و کوثر ہو تم سلسبیل امیری حسین و نعم الامیر
 
پئے دوستان خداوند مہر پئے دشمنان خداوند قہر
یہ ہیں معنئ عرش رب جلیل امیری حسین و نعم الامیر
 
وہ ہنگام سجدہ کے راز و نیاز کھلا جس سے
خمین ایران میں بزم.استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں.مصرع دیا گیا *ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں* دیا گیا. مقررہ وقت میں تو بس چار شعر ہو سکے تھے بعدہ جب سونے لیٹے تو بلا تفریق زبان و عمر تمام احباب کے فلک شگاف *خراٹوں* نے جب سونے نہ دیا تو کچھ اور شعر بھی ہوگئے سو پیش خدمت ہیں
 
 
؟ وہ اور غم بٹانے جائیں
ہاں یہ.ممکن ہے دل دکھانے جائیں
 
راستہ روک سکتا ہے
وہ کسی کو اگر جلانے جائیں
 
ہے اسی فکر میں ہراک انساں
طعن کے نیزے کس پہ تانے جائیں
 
اب نہ گل ہے نہ
سجدہ خالق یزداں کے ہوں سب راز عیاں
دل کو کرلیجئے گر حضرت مہدی کا مکاں
ہم کو معلوم نہیں گھر کا پتہ جانِ بہار
آپ آجائیے خود کیجئے ہم پر احساں
وقت بتلائے گا دعؤوں کی حقیقت کیونکہ
ہم زبانی تو کیا کرتے ہیں سب کچھ قرباں
مال و اولاد طلب کرنے سے فرصت جو ملے
باندھئے مہدئِ دوراں سے کوئی تو پیماں
افقِ حق پہ نظر رکھ صدفِ قلبِ حزیں
بحرِ ایماں پہ برسنے کو ہے آبِ نیساں
مطلع ثانی
خواہش نفس پہ اب پھیر چھری بن انساں
ان سرابوں سے نکل اور حقیقت پہچاں
پیشہ ور مدح سرا
:
*طرحی محفل بمناسبت میلاد مسعود آفتاب دوم چرخ امامت مولانا و سید شباب اہل الجنۃ *امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام*
مصرع طرح: *نور حسن سے روشن کاشانہِ علی ہے*
*قندیلِ حق میں کوثر کی شمع جل رہی ہے**نورِ حسنؑ سے روشن کاشانۂِ علی ہے*
*ملتا ہے مدحِ احمدؐ کا ذائقہ زباں کو**یعنی حسنؑ کی مدحت، نعتِ محمدیؐ ہے*
*صلحِ نبیؐ نے فتحِ مکّہ کی راہ کھولی**صلحِ حسنؑ میں فتحِ کرب و بلا چھپی ہے*
*سب انبیاء ؑ کی محنت خطرے میں پڑگئی تھی**تیرے قلم کی جنبش سب کو بچا گئی
بزم استعارہ کی آج مورخہ ۲۲ جولائی ۲۰۲۱ کی شعری و تنقیدی نشست میں فی البدیہہ اشعار کہنے کے لئے مصرع طرح *زندگی وقف ہے برائے غدیر* دیا گیا اس پر جو اشعار مقررہ وقت میں موزوں ہوئے پیش خدمت ہیں
سر پہ بیٹھا ہے جب ہمائے غدیرکیوں نہ دیوان ہو صدائے غدیر
خلد و.کوثر کی آبرو کے لئےاستعارہ بنی ہوائے غدیر
پیاس دیکھی مری تو رب.نے لکھیمیری قسمت میں آبنائے غدیر
بیچ دوں کائنات کے بدلےاتنی سستی نہیں ولائے غدیر
مرحبا کہہ اٹھی شراب الستجب ملے دل کو جام ہائے غدیر
ی
قم مقدس میں عید زہرا کی.مناسبت سے منعقدہ محفل کے.لئے لکھا گیا طرحی کلام پیش خدمت ہے کچھ اضطراری وجوہات کی بنا پر محفل میں شریک نہیں ہو سکا تھا.
وادئ عشق علی میں گر ٹھکانہ چاہئےتو جبیں ہر حال میں سجدے میں جانا چاہئے
شمع عشق حق کی لو کو تیز کرنے کے لئےعاشقوں کو نفس کی خواہش جلانا چاہئے
.چھوڑ جاتے ہوں جو ہادی کو میان کارزارایسے لوگوں سے بھلا کیوں دل.لگانا چاہئے
سنت سفیانیت ہے گالیاں ہرزہ سرائیکیا علی والوں کو بھی اس رہ پہ آنا چاہئے
ہم یقینا ہیں دعا

آخرین مطالب

آخرین جستجو ها

ost world vakilmelkialipour کتابخانه عمومی سلمان فارسی گلبهار فیلم تو مویز موبایل بازار مرکز تعمیر لوازم خانگی سامسونگ در تهران سازه مدرن کارا یدک مقالات عمومی مجله تکنولوژی در صنایع مختلف